Iztirab

Iztirab

وہ شام کیا تھی

وہ شام کیا تھی جب اس نے بڑی محبت سے
کہا کہ تو نے یہ سوچا بھی ہے کبھی احمد
خدا نے کتنی تجھے نعمتیں عطا کی ہیں
وہ بخششیں کہ ہیں بالا تر از شمار و عدد
یہ خال و خد یہ وجاہت یہ تندرست بدن
گرجتی گونجتی آواز استوار جسد
بسان لالۂ صحرا تپاں تپاں چہرہ
مثالِ نخل کہستاں دراز قامت و قد
اگرچہ نام و نسب کا نہیں ہے تو قائل
پہ ہیں قبیلۂ سادات سے ترے اب و جد
بجائے خود ہنر شاعری ہے اک انعام
پھر اس پہ اور شرف ہے قبولیت کی سند
ترے کلام پہ یہ قول صادق آتا ہے
کہ شعر خوب ز دل خیزد و بہ دل ریزد
کبھی غزل سنو تیری تو ایسا لگتا ہے
درون نے چوں دل نے نواز می نالد
ترا نہال سخن بارور ہوا کیا کیا
اگرچہ سایہ کناں تجھ پہ تھے کئی برگد
قبول عام نے تجھ کو وہ آبرو بخشی
کہ خلق پیار کرے تجھ سے اور حریف حسد
محبتیں تجھے اتنی ملیں کہ دل میں ترے
نہ دشمنی نہ عداوت نہ ضد نہ بغض نہ کد
تو اپنے عصر میں ممتاز ہے یہی ہے بہت
چراغ کس کا وگرنہ جل ہے تا بہ ابد
اگر ہو محفل خوباں تو جان محفل تُو
اگر ہو حلقۂ رنداں تو تو سرِ مسند
کبھی ہے رقص کناں نعرہ زن سر بازار
کبھی ہے راندہ دربار صورت سرمد
امیرِ شہر کی نظروں میں مفسد و سرکش
خطیبِ شہر کے خطبوں میں کافر و مرتد
کبھی وطن بدری کے عذاب جاں لیوا
کبھی اسیری و درماندگی کی ساعت بد
اگر کریں جو تقابل ترے مصائب کا
زمانہ سخت کم آزار تھا بجان اسد
سو یہ بھی ایک ہے اعزاز اہل دل کے لئے
سو یہ بھی دین ہے اس کی بہر کسے نہ دہد
نہ تیرے دوش پہ خلعت کوئی کفن کی طرح
نہ تیرے سر پہ ہے دستار کبر کا گنبد
سعادت ایست کہ ہرگز بزور بازو نیست
کہ تانہ رحمت پروردگار می بخشد
میں بت بنا رہا سنتا رہا بیان صنم
چوں پیشِ آئنہ رو نفس نہ کشد
وہ خود غزل تھی سو جائز مبالغے اس کے
مگر نہ یوں بھی کہ چھو لیں غلو و کذب کی حد
وہ بولتی گئی جذبات کے بہاؤ میں تھی
وہ کہہ رہی تھی خرد کو جنوں جنوں کو خرد
جب اس کی ہوش ربا گفتگو تمام ہوئی
تو اس سے میں نے کہا اے قرار جان و جسد
میں کب رہا ہوں مگر اس کی ذات سے غافل
کہ جس کی مجھ پہ رہیں مہربانیاں بے حد
یہ رنگ و نقش یہ حرف و نوا یہ صحت جاں
یہ شاعری یہ شرف سب اسی کی داد و مدد
یہ فن بہانہ ہے اظہار درد دل کے لئے
نہ یہ کہ شہرہ و شہرت تھا گوہر مقصد
مگر مرے لئے سو بخششوں کی اک بخشش
مری طلب کے بیابان میں تری آمد
ترے ہی طلعت و گیسو کی دھوپ چھاؤں ہے
کہاں کی صبح بنارس کہاں کی شام اودھ
تو خود بہار شمائل ہے داد خواہ تیرے
گلاب و لالہ و نسریں و نسترن کے سبد
ترا جمال ترا التفات تیری وفا
مرے دیار تمنا کی آخری سرحد
مرا وجود مرے خواب میری دولت فن
تری ہی نذر ہی اے جاں اگر قبول افتد
کجاست سنگ در یار من کہ دل بہ نہم
.بر آستانہ شاہاں فراز پا نہ نہد

احمد فراز

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *