وہ شہر اب بھی اسی جگہ ہے
وہ سرد ریتیلے راستے
آج بھی انہی وادیوں کی جانب رواں دواں ہیں
جہاں گھنے جھنڈ ہیں درختوں کے
شاخساروں میں چہچہاتے ہوئے پرندوں کی ٹولیاں ہیں
جہاں پہاڑوں کی سرمئی چوٹیوں پر آوارہ بادلوں نے
نشیمن اپنے بنا رکھے ہیں
ندی کے پانی میں
سبز پرچھائیوں کی پریوں کا ہے بسیرا
شریر جھونکے ہوا کے جن کا سجل بدن گدگدا رہے ہیں
فضا میں وہ تازگی و تابندگی جہاں مسکرا رہی ہے
ہوا ہو صدیوں کے بعد جیسے زمیں پہ پہلے پہل سویرا
کیا ہو سورج نے جیسے صدیوں کے بعد اس خاکداں کا پھیرا
وہ شہر اب بھی اسی جگہ ہے
وہ سارے منظر ابھی انہیں چوکھٹوں میں جیسے جڑے ہوئے ہیں
گئے زمانے بھی جیسے آنکھوں کے سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں
وہی گلابی سی دھوپ دیوار و در کو رنگیں بنا رہی ہے
کھلی چھتوں پر
وہی رو پہلی سی چاندنی گیت گا رہی ہے
کشادہ دل آنگنوں میں اب بھی
نشاط احساس کے شگوفے چٹک رہے ہیں
کہیں سجی ہے خود اپنے ہی سائباں کے نیچے
قرار قلب و نظر کی محفل
کہیں پڑوسی کے گھر کا نغمہ سکوں کی سوغات بانٹتا ہے
کہیں جھروکوں سے جھانکتا ہے کسی کا پندار خودنمائی
کہیں منڈیریں پھلانگتا ہے کسی کا احساس نارسائی
وہی جھروکے وہی منڈیریں بلند و بالا وہی منارے
اور ان مناروں پہ پر سکھاتے
کبوتران حرم وہی ہیں
اذاں کی آواز سن کے مسجد کی سمت اٹھتے قدم وہی ہیں
ابھی وہی آسمان ان کی زمیں پہ سایہ کیے ہوئے ہے
ابھی وہاں اپنے نیک بندوں کی قسمتوں کی
خدا ضمانت لیے ہوئے ہے
وہ شہر اب بھی اسی جگہ ہے
وہ لوگ اب بھی اسی طرح
ایک دوسرے کے غموں سے واقف مسرتوں سے بھی باخبر ہیں
وہ آشنا منزلوں کے راہی ہیں
جادۂ شب پہ صدیوں سے ہم سفر ہیں
وہ جانتے ہیں
کہ اس شب و روز کی مسافت کا مدعا کیا مآل کیا ہے
وہ جانتے ہیں
کہ کون کس مرحلے پہ کیا سوچتا ہے
کس کا خیال کیا ہے
وہ خود کو پہچانتے ہیں
اپنی حدوں کو بھی جانتے ہیں
اپنی حدوں میں رہ کر ہی جی رہے ہیں
جنم جنم سے سکھی رہے ہیں
کبھی وہ مجھ سے بھی آشنا تھے مجھے بھی پہچانتے تھے لیکن
میں ایک لمبے سفر پہ نکلا
دہکتی لوہے کی پٹریاں میرے آگے پیچھے رہیں لپکتی بہت دنوں تک
اور آج برسوں کے بعد لوٹا تو میں نے دیکھا
میں وہ نہیں ہوں
جسے وہ سب الوداع کہتے ہوئے کسی روز رو پڑے تھے
میں وہ نہیں ہوں
جو ان سے رخصت کے وقت شاید اداس بھی تھا ملول بھی تھا
میں ان سے کہتا ہوں میں وہی ہوں
تو میری آواز خود مجھے اجنبی سی لگتی ہے
جیسے کہتا ہو کوئی تم جھوٹ بولتے ہو
تو کیا یہ سچ ہے کہ دو رخی مجھ میں آ گئی ہے
وہ شہر اب بھی اسی جگہ ہے
وہ سرد ریتیلے راستے
آج بھی انہی وادیوں کی جانب رواں دواں ہیں
وہ سارے منظر ابھی انہی چوکھٹوں میں جیسے جڑے ہوئے ہیں
وہ لوگ اب بھی اسی طرح
ایک دوسرے کے غموں سے واقف
مسرتوں سے بھی باخبر ہیں
مگر اب ان میں مجھے کوئی جانتا نہیں ہے
میں دور کا اجنبی مسافر نہیں کوئی مانتا نہیں ہے
مخمور سعیدی