Iztirab

Iztirab

وہ لمحہ جو میرا تھا

اک دن
تم نے مجھ سے کہا تھا
دھوپ کڑی ہے
اپنا سایہ ساتھ ہی رکھنا
وقت کے ترکش میں جو تیر تھے کھل کر برسے ہیں
زرد ہوا کے پتھریلے جھونکوں سے
جسم کا پنچھی گھایل ہے
دھوپ کا جنگل پیاس کا دریا
ایسے میں آنسو کی اک اک بوند کو
انساں ترسے ہیں
تم نے مجھ سے کہا تھا
سمے کی بہتی ندی میں
لمحے کی پہچان بھی رکھنا
میرے دل میں جھانک کے دیکھو
دیکھو ساتوں رنگ کا پھول کھلا ہے
وہ لمحہ جو میرا تھا وہ میرا ہے
وقت کے پیکاں بے شک تن پر آن لگے
دیکھو اس لمحے سے کتنا گہرا رشتہ ہے
ادا جعفری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *