Iztirab

Iztirab

وہ چلے جھٹک کے دامن مرے دست ناتواں سے

وہ چلے جھٹک کے دامن مرے دست ناتواں سے 
اسی دن کا آسرا تھا مجھے مرگ ناگہاں سے 
یہ حجاب کفر و ایماں بھی ہٹا دو درمیاں سے 
کہ مقام قرب آگے ہے حدود دو جہاں سے 
مری طرح تھک نہ جائے کہیں حسرت فسردہ 
کہ لپٹ کے چل تو دی ہے وہ غبار کارواں سے 
مجھے شوق سے تغافل ترا پائمال کر دے 
مرا سر اٹھا نہ اٹھے ترے سنگ آستاں سے 
ترے مے کدہ کا ساقی ہے بیاں بھی کیف آگیں 
کہ ہوا کو ہے تواجد مرے ندرت بیاں سے 
مری بے کسی کا عالم کوئی اس کے جی سے پوچھے 
مری طرح لٹ گیا ہو بچھڑ کے کارواں سے 
جو خیال میں بھی چھوٹے در پاک تیرا مجھ سے 
تو لپٹ کے روئیں مجھ سے تیرے سنگ آستاں سے 
تری رہ گزر تک اے جاں جو نصیب ہو رسائی 
ملوں آنکھیں اپنی نقش کف پائے سارباں سے 
وہی گونجتی ہیں اب تک مرے کان میں صدائیں 
جو سنا تھا زمزمہ اک کبھی ساز کن فکاں سے 
نہ ہو پاس پردہ ان کو یہ پردہ داریاں ہوں 
مری دکھ بھری کہانی جو سنے مری زباں سے 
مری چشم حسرت آگیں یہ خرابیاں نہ دیکھے 
جو قفس کو دور رکھ دے کوئی میرے آشیاں سے 
مجھے خاک میں ملا کر مری خاک بھی اڑا دے 
ترے نام پر مٹا ہوں مجھے کیا غرض نشاں سے 
اسی خاک آستاں میں کسی دن فنا بھی ہوگا 
.کہ بنا ہوا ہے بیدمؔ اسی خاک آستاں سے

بیدم شاہ وارثی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *