Iztirab

Iztirab

وید

فیض قدرت سے جو تقدیر کھلی عالم کی
ساحل ہند پہ وحدت کی تجلی چمکی
مٹ گئی جہل کی شب صبح کا تارہ چمکا
آریہ ورت کی قسمت کا ستارا چمکا
اہل دل پر ہوئی کیفیت عرفاں طاری
جن سے دنیا میں ہوئیں دین کی نہریں جاری
تھیں کھلی جلوہ گہ خاص میں راہیں ان کی
واقف راز حقیقت تھیں نگاہیں ان کی
عرش سے ان کے لیے نور خدا آیا تھا
بندۂ خاص تھے رشیوں کا لقب پایا تھا
وید ان کے دل حق کیش کی تصویریں ہیں
جلوۂ قدرت معبود کی تفسیریں ہیں
عین کثرت میں یہ وحدت کا سبق وید میں ہے
ایک ہی نور ہے جو ذرہ و خورشید میں ہے
جس سے انسان میں ہے جوش جوانی پیدا
اسی جوہر سے ہے موجوں میں روانی پیدا
رنگ گلشن میں فضا دامن کہسار میں ہے
خوں رگ گل میں ہے نشتر کی خلش خار میں ہے
تمکنت حسن میں ہے جوش ہے دیوانے میں
روشنی شمع میں ہے نور ہے پروانے میں
رنگ و بو ہو کے سمایا وہی گلزاروں میں
ابر بن کر وہی برسا کیا کہساروں میں
شوق ہو کر دل مجذوب پہ چھایا ہے وہی
درد بن کر دل شاعر میں سمایا ہے وہی
نور ایماں سے جو پیدا ہو صفا سینے میں
عکس اس کا نظر آتا ہے اس آئینے میں

برج نرائن چکبست

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *