Iztirab

Iztirab

وے صورتیں الہی کس ملک بستیاں ہیں

وے صورتیں الہی کس ملک بستیاں ہیں 
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں 
آیا تھا کیوں عدم میں کیا کر چلا جہاں میں 
یہ مرگ و زیست تجھ بن آپس میں ہنستیاں ہیں 
کیونکر نہ ہو مشبک شیشہ سا دل ہمارا 
اس شوخ کی نگاہیں پتھر میں دھنستیاں ہیں 
برسات کا تو موسم کب کا نکل گیا پر 
مژگاں کی یہ گھٹائیں اب تک برستیاں ہیں
لیتے ہیں چھین کر دل عاشق کا پل میں دیکھو 
خوباں کی عاشقوں پر کیا پیش دستیاں ہیں
اس واسطے کہ ہیں یہ وحشی نکل نہ جاویں 
آنکھوں کو میری مژگاں ڈوروں سے کستیاں ہیں 
قیمت میں ان کے گو ہم دو جگ کو دے چکے اب 
اس یار کی نگاہیں تس پر بھی سستیاں ہیں 
ان نے کہا یہ مجھ سے اب چھوڑ دخت رز کو 
پیری میں اے دوانے یہ کون مستیاں ہیں 
جب میں کہا یہ اس سے سوداؔ سے اپنے مل کے 
.اس سال تو ہے ساقی اور مے پرستیاں ہیں

مرزا محمد رفیع سودا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *