ٹکڑا جہاں گرا جگر چاک چاک کا یاقوت سا دمکنے لگا رنگ خاک کا لے جاتے ہیں اٹھا کے ملک اس کی نعش کو یہ مرتبہ ہے تیغ نگہ کے ہلاک کا اے باغباں نہ مجھ سے ہو آزردہ میں چلا اک دم خوش آ گیا تھا مجھے سایہ تاک کا ملنے میں کتنے گرم ہیں یہ ہائے دیکھیو کشتہ ہوں میں تو شعلہ رخوں کے تپاک کا اے شعلہ اپنی گرم روی پر نہ بھولیو عالم ہے اور آہ دل سوزناک کا آتا ہے اپنے کشتے کی تربت پہ جب وہ شوخ اک نعرہ واں سے نکلے ہے روحی فداک کا شکر خدا کہ نام ہے عصمت کا مصحفیؔ روز جزا گواہ مرے عشق پاک کا
غلام ہمدانی مصحفی