Iztirab

Iztirab

ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم

ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم 
پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم 
ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی سے ہم 
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم 
ہم سے نہ بولو تم اسے کیا کہتے ہیں بھلا 
انصاف کیجے پوچھتے ہیں آپ ہی سے ہم 
بیزار جان سے جو نہ ہوتے تو مانگتے 
شاہد شکایتوں پہ تری مدعی سے ہم 
اس کو میں جا مریں گے مدد اے ہجوم شوق 
آج اور زور کرتے ہیں بے طاقتی سے ہم 
صاحب نے اس غلام کو آزاد کر دیا 
لو بندگی کہ چھوٹ گئے بندگی سے ہم 
بے روئے مثل ابر نہ نکلا غبار دل 
کہتے تھے ان کو برق تبسم ہنسی سے ہم
ان ناتوانیوں پہ بھی تھے خار راہ غیر 
کیوں کر نکالے جاتے نہ اس کی گلی سے ہم 
کیا گل کھلے گا دیکھیے ہے فصل گل تو دور 
اور سوئے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم 
منہ دیکھنے سے پہلے بھی کس دن وہ صاف تھا 
بے وجہ کیوں غبار رکھیں آرسی سے ہم 
ہے چھیڑ اختلاط بھی غیروں کے سامنے 
ہنسنے کے بدلے روئیں نہ کیوں گدگدی سے ہم 
وحشت ہے عشق پردہ نشیں میں دم بکا 
منہ ڈھانکتے ہیں پردۂ چشم پری سے ہم 
کیا دل کو لے گیا کوئی بیگانہ آشنا 
کیوں اپنے جی کو لگتے ہیں کچھ اجنبی سے ہم 
لے نام آرزو کا تو دل کو نکال لیں 
.مومنؔ نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم

مومن خان مومن

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *