ٹھوکریں کھلوائیں کیا کیا پائے بے زنجیر نے گردش تقدیر نے جولانی تدبیر نے عالم اسباب سے کیا فیض ناکامی ملا راہ پر لا کر مجھے بھٹکا دیا تقدیر نے کارواں کتنے بگولے بن کے غائب ہو گئے خاک سے یکساں کیا جولاں گہ تدبیر نے باز آئے زندگی کے خواب رنگا رنگ سے دست و پا گم کر دئیے اندیشۂ تعبیر نے داد خواہی کو اٹھا ہے ذرہ پامال تک سوتے فتنوں کو جگایا حشر عالم گیر نے ماتم حسرت کیا پہلے گریباں پھاڑ کر پھر دعا دی دشمنوں کو دست بے شمشیر نے جان دے کر ایک حکم آخری مانا تو کیا لکھ دیا جب سرکشوں میں کاتب تقدیر نے واہ کیا کہنا مجسم کر دیا موہوم کو نقش بندان ازل کی شوخی تحریر نے جم گئی گرد فنا ایسی کہ چھٹنے کی نہیں کس غضب کا رنگ پکڑا یاسؔ کی تصویر نے
یگانہ چنگیزی