پالا امید و بیم سے ناگاہ پڑ گیا دل کا بنا بنایا گھروندا اجڑ گیا الٹی تھی مت زمانۂ مردہ پرست کی میں ایک ہوشیار کہ زندہ ہی گڑ گیا شربت کا گھونٹ جان کے پیتا ہوں خون دل غم کھاتے کھاتے منہ کا مزہ ہی بگڑ گیا ایسے کے پاؤں چومئے یا پیار کیجیے قدموں پہ میں جھکا تو وہ دونا اکڑ گیا دونوں کے دل سے پوچھئے انجام کار عشق سل گھستے گھستے گھس گئی بٹا رگڑ گیا کھینچی جو صدق دل سے اسیروں نے آہ سرد پھر کیا تھا پاؤں باد خزاں کا اکھڑ گیا اللہ ری کشاکش دیر و حرم کہ یاسؔ حیرت کے مارے بیچ دوراہے پہ گڑ گیا
یگانہ چنگیزی