Iztirab

Iztirab

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے 
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے 
لگنے نہ دے بس ہو تو اس کے گوہر گوش کو بالے تک 
اس کو فلک چشم مہ و خور کی پتلی کا تارا جانے ہے 
آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں 
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے 
عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں 
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے 
چارہ گری بیماری دل کی رسم شہر حسن نہیں 
ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارہ جانے ہے 
کیا ہی شکار فریبی پر مغرور ہے وہ صیاد بچہ 
طائر اڑتے ہوا میں سارے اپنے اساری جانے ہے 
مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں 
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے 
کیا کیا فتنے سر پر اس کے لاتا ہے معشوق اپنا 
جس بے دل بے تاب و تواں کو عشق کا مارا جانے ہے 
رخنوں سے دیوار چمن کے منہ کو لے ہے چھپا یعنی 
ان سوراخوں کے ٹک رہنے کو سو کا نظارہ جانے ہے 
تشنہ خوں ہے اپنا کتنا میرؔ بھی ناداں تلخی کش 
.دم دار آب تیغ کو اس کے آب گوارا جانے ہے

میر تقی میر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *