Iztirab

Iztirab

پتھر

ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فن کار 
ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لا دوں 
میں ترے سامنے انبار لگا دوں لیکن 
کون سے رنگ کا پتھر ترے کام آئے گا 
سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا 
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیلا پتھر 
جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے 
کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہوگی 
جس پہ حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے 
اک وہ پتھر ہے جو کہلاتا ہے تہذیب سفید 
اس کے مرمر میں سیہ خون جھلک جاتا ہے 
ایک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے مگر 
ہاتھ میں تیشۂ زر ہو تو وہ ہاتھ آتا ہے 
جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں 
جتنی اقدار ہیں اس دور کی سب پتھر ہیں 
سبزہ و گل بھی ہوا اور فضا بھی پتھر 
میرا الہام ترا ذہن رسا بھی پتھر 
اس زمانے میں تو ہر فن کا نشاں پتھر ہے 
ہاتھ پتھر ہیں ترے میری زباں پتھر ہے 
ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فن کار 

احمد ندیم قاسمی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *