Iztirab

Iztirab

پتھر کی زبان

اسی اکیلے پہاڑ پر تو مجھے ملا تھا 
یہی بلندی ہے وصل تیرا 
یہی ہے پتھر مری وفا کا 
اجاڑ چٹیل اداس ویراں 
مگر میں صدیوں سے، اس سے لپٹی ہوئی کھڑی ہوں 
پھٹی ہوئی اوڑھنی میں سانسیں تری سمیٹے 
ہوا کے وحشی بہاؤ پر اڑ رہا ہے دامن 
سنبھالا لیتی ہوں پتھروں کو گلے لگا کر 
نکیلے پتھر 
جو وقت کے ساتھ میرے سینے میں اتنے گہرے اتر گئے ہیں 
کہ میرے جیتے لہو سے سب آس پاس رنگین ہو گیا ہے 
مگر میں صدیوں سے اس سے لپٹی ہوئی کھڑی ہوں 
اور ایک اونچی اڑان والے پرند کے ہاتھ 
تجھ کو پیغام بھیجتی ہوں 
تو آ کے دیکھے 
تو کتنا خوش ہو 
کہ سنگریزے تمام یاقوت بن گئے ہیں 
دمک رہے ہیں 
.گلاب پتھر سے اگ رہا ہے

فہیمدہ ریاض

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *