Iztirab

Iztirab

پردہ اٹھا کے مہر کو رخ کی جھلک دکھا کہ یوں

پردہ اٹھا کے مہر کو رخ کی جھلک دکھا کہ یوں 
باغ میں جا کے سرو کو قد کی لچک دکھا کہ یوں 
آتش گل چمن کے بیچ جب ہمہ سو ہو شعلہ زن 
اپنے لباس سرخ کی اس کو بھڑک دکھا کہ یوں 
جو کوئی پوچھے جان من شوخی و جلوہ کس طرح 
لمعۂ برق کی طرح ایک جھمک دکھا کہ یوں 
شیشے کے بیچ دخت رز کرتی ہے شوخ چشمیاں 
تو بھی ٹک اپنی چشم کی اس کو بھڑک دکھا کہ یوں 
نظریں ملاوے گر کوئی تجھ سے کبھی تو جان من 
اس کے تئیں تو دور سے آنکھیں تنک دکھا کہ یوں 
کبک و تدرو گر کریں آگے ترے خرام ناز 
اپنے خرام ناز کی ان کو لٹک دکھا کہ یوں 
راتوں کو تجھ سے جاگنا گر کوئی پوچھے مصحفیؔ 
چشم ستارہ باز ہیں اس کو فلک دکھا کہ یوں 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *