Iztirab

Iztirab

پس آئینہ

مجھے جمال بدن کا ہے اعتراف مگر 
میں کیا کروں کہ ورائے بدن بھی دیکھتا ہوں 
یہ کائنات فقط ایک رخ نہیں رکھتی 
چمن بھی دیکھتا ہوں اور بن بھی دیکھتا ہوں 
مری نظر میں ہیں جب حسن کے تمام انداز 
میں فن بھی دیکھتا ہوں فکر و فن بھی دیکھتا ہوں 
نکل گیا ہوں فریب نگاہ سے آگے 
میں آسماں کو شکن در شکن بھی دیکھتا ہوں 
وہ آدمی کہ سبھی روئے جن کی میت پر 
میں اس کو زیر کفن خندہ زن بھی دیکھتا ہوں 
میں جانتا ہوں کہ خورشید ہے جلال مآب 
مگر غروب سے خود کو رہائی دیتا نہیں 
میں سوچتا ہوں کہ چاند اک جمال پارہ ہے 
مگر وہ رخ جو کسی کو دکھائی دیتا نہیں 
میں سوچتا ہوں حقیقت کا یہ تضاد ہے کیا 
خدا جو دیتا ہے سب کچھ خدائی دیتا نہیں 
وہ لوگ ذوق سے عاری ہیں جو یہ کہتے ہیں 
کہ اشک ٹوٹتا ہے اور سنائی دیتا نہیں 
بدن بھی آگ ہے اور روح بھی جہنم ہے 
مرا قصور یہ ہے میں دہائی دیتا نہیں 

احمد ندیم قاسمی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *