پس قافلہ جُو غبار تھا کوئی اس میں ناقہ سوار تھا ابھی گرد باد ہو اڑ گیا وُہ عجب طرح کا غبار تھا میں نگاہ پاک سے دیکھے تھا تیرے حُسن پاک کو اس پہ بھی میرے جی میں خواہش وصل تھی میرے دُل میں بوس و کنار تھا دِل خستَہ پہلو میں رہ گیا میرے سرد ہو کہ تُو کیا عجب کے کسی کی صافیٔ شست کا یہ خدنگ خوردہ شکار تھا میری بے کسی پہ تیری نظر نہ پڑی جب اے بت عشوہ گر وُہ جُو ترا عہد شباب تھا سُو وُہ عین جُوش بہار تھا میں مزار کو بھی مٹا دیا میں غبار کو بھی اڑا دیا کے تیری صفائے مزاج پر میری خاک سے بھی غبار تھا اس ادا سے تیر لگاوے تھا تُو بہ روئے تودۂ مشت گُل کے فلک بہ تیغ و کمان بھی تیرا محو کند و کدار تھا یہ جنُوں کی عقدہ کشائیاں کوئی بُھولتا ہوں میں مصحفیؔ .کے بہ روئے ہر سر آبلہ وہی ناخن سر خار تھا
مصحفی غلام ہمدانی