Iztirab

Iztirab

پشیمانی

میں یہ سوچ کر اس کے در سے اٹھا تھا 
کہ وہ روک لے گی منا لے گی مجھ کو 
ہواؤں میں لہراتا آتا تھا دامن 
کہ دامن پکڑ کر بٹھا لے گی مجھ کو 
قدم ایسے انداز سے اٹھ رہے تھے 
کہ آواز دے کر بلا لے گی مجھ کو 

مگر اس نے روکا نہ مجھ کو منایا 
نہ دامن ہی پکڑا نہ مجھ کو بٹھایا 
نہ آواز ہی دی نہ مجھ کو بلایا 
میں آہستہ آہستہ بڑھتا ہی آیا 
یہاں تک کہ اس سے جدا ہو گیا میں 

کیفی اعظمی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *