Iztirab

Iztirab

پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا

پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا 
رخصت صبر تھی یا ترک شکیبائی تھا 
شب فرقت میں دل غمزدہ بھی پاس نہ تھا 
وہ بھی کیا رات تھی کیا عالم تنہائی تھا 
میں تھا یا دیدہ خوننابہ فشانی شب ہجر 
ان کو واں مشغلۂ انجمن آرائی تھا 
پارہ ہائے دل خونیں کی طلب تھی پیہم 
شب جو آنکھوں میں مری ذوق خود آرائی تھا 
رحم تو ایک طرف پایہ شناسی دیکھو 
قیس کو کہتے ہیں مجنون تھا صحرائی تھا 
آنکھیں قاتل سہی پر زندہ جو کرنا ہوتا 
لب پہ اے جان تو اعجاز مسیحائی تھا 
خون رو رو دیے بس دو ہی قدم میں چھالے 
یاں وہی حوصلہ بادیہ پیمائی تھا 
دشمن جاں تھے ادھر ہجر میں درد و غم و رنج 
اور ادھر ایک اکیلا ترا شیدائی تھا 
انگلیاں اٹھتی تھیں مژگاں کی اسی رخ پیہم 
جس طرف بزم میں وہ کافر ترسائی تھا 
کون اس راہ سے گزرا ہے کہ ہر نقش قدم 
چشم عاشق کی طرح اس کا تماشائی تھا 
خوب وقت آئے نکیرین جزا دے گا خدا 
لحد تیرہ میں بھی کیا عالم تنہائی تھا 
ہم نے بھی حضرت شبلیؔ کی زیارت کی تھی 
.یوں تو ظاہر میں مقدس تھا پہ شیدائی تھا

علامہ شبلی نعمانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *