Iztirab

Iztirab

پٹرے دھرے ہیں سر پر دریا کے پاٹ والے

پٹرے دھرے ہیں سر پر دریا کے پاٹ والے 
آتے ہیں کس ادا سے اس منہ پہ گھاٹ والے 
چسکا پڑا ہے جب سے شیریں لبوں کا اس کے 
کیسے لگے رہیں ہیں بوسے کی چاٹ والے 
دریا پہ تو نہانے جایا نہ کر کہ ناداں 
واں گھات میں ہیں تیری کئی دھوبی پاٹ والے 
کوچے میں تیرے ظالم از بہر داد خواہی 
یہ ظلم ہے تو لاکھوں آویں گے گھاٹ والے 
بازار مصر میں وہ جن جن کو چھل گیا ہے 
اک سوچ میں ہیں بیٹھے اب تک وہ ہاٹ والے 
دیکھے نہ کوئی ان کو با دیدۂ حقارت 
خزپوشوں پر گراں ہیں البتہ ٹاٹ والے 
میں نے رقیب کو کل باتوں میں خوب کاٹا 
چوکیں ہیں مصحفیؔ کب ہیں وہ جو کاٹ والے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *