Iztirab

Iztirab

پیام لے کہ جُو پیغام بر روانہ ہوا

پیام لے کہ جُو پیغام بر روانہ ہوا 
حسد کو حیلہ ملا اشک کو بہانہ ہوا 
وہ مری آہ جو شرمندۂ اثر نہ ہوئی 
وہ مرا درد جو منت کش دوا نہ ہوا 
خیال میں نہ رہیں صورتیں عزیزوں کی 
وطن سے چھوٹے ہوئے اِس قدر زمانہ ہوا 
وہ داغ جس کو جگہ دِل میں دی تھی جیتے جی 
چراغ بھی تُو ہمارے مزار کا نہ ہوا 
پری وشوں کو سناتے ہیں قصہ خواں بیخودؔ 
.ہمارا حال نہ ٹھہرا کوئی فسانہ ہوا 

بیخود بد ایونی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *