Iztirab

Iztirab

پی کر بھی طبیعت میں تلخی ہے گرانی ہے

پی کر بھی طبیعت میں تلخی ہے گرانی ہے 
اس دور کے شیشوں میں صہبا ہے کہ پانی ہے 
اے حسن تجھے اتنا کیوں ناز جوانی ہے 
یہ گل بدنی تیری اک رات کی رانی ہے 
اس شہر کے قاتل کو دیکھا تو نہیں لیکن
مقتل سے جھلکتا ہے قاتل کی جوانی ہے 
جلتا تھا جو گھر میرا کچھ لوگ یہ کہتے تھے 
کیا آگ سنہری ہے کیا آنچ سہانی ہے 
اس فن کی لطافت کو لے جاؤں کہاں آخر 
پتھر کا زمانہ ہے شیشے کی جوانی ہے 
کیا تم سے کہیں کیا ہے آہنگ شمیمؔ اپنا 
شعلوں کی کہانی ہے شبنم کی زبانی ہے

شمیم کرہانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *