Iztirab

Iztirab

چاند اور تارے

ڈرتے ڈرتے دم سحر سے 
تارے کہنے لگے قمر سے 
نظارے رہے وہی فلک پر 
ہم تھک بھی گئے چمک چمک کر 
کام اپنا ہے صبح و شام چلنا 
چلنا چلنا  مدام چلنا 
بے تاب ہے اس جہاں کی ہر شے 
کہتے ہيں جسے سکوں نہيں ہے 
رہتے ہيں ستم کش سفر سب 
تارے انساں شجر حجر سب 
ہوگا کبھی ختم يہ سفر کيا 
منزل کبھی آئے گی نظر کيا 
کہنے لگا چاند ہم نشينو 
اے مزرع شب کے خوشہ چينو
جنبش سے ہے زندگی جہاں کی 
يہ رسم قديم ہے يہاں کی 
ہے دوڑتا اشہب زمانہ 
کھا کھا کہ طلب کا تازيانہ 
اس رہ ميں مقام بے محل ہے 
پوشيدہ قرار ميں اجل ہے 
چلنے والے نکل گئے ہيں 
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہيں 
انجام ہے اس خرام کا حسن 
.آغاز ہے عشق انتہا حسن 

علامہ اقبال 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *