Iztirab

Iztirab

چاند تاروں کا بن

موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن 
رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن 
رات بھر جگمگاتا رہا چاند تاروں کا بن 
تشنگی تھی مگر 

تشنگی میں بھی سرشار تھے 
پیاسی آنکھوں کے خالی کٹورے لیے 
منتظر مرد و زن 
مستیاں ختم، مد ہوشیاں ختم تھیں، ختم تھا بانکپن 
رات کے جگمگاتے دہکتے بدن 

صبح دم ایک دیوار غم بن گئے 
خار زار الم بن گئے 
رات کی شہ رگوں کا اچھلتا لہو 
جوئے خوں بن گیا 

کچھ امامان صد مکر و فن 
ان کی سانسوں میں افعی کی پھنکار تھی 
ان کے سینے میں نفرت کا کالا دھواں 
اک کمیں گاہ سے 
پھینک کر اپنی نوک زباں 
خون نور سحر پی گئے 

رات کی تلچھٹیں ہیں اندھیرا بھی ہے 
صبح کا کچھ اجالا بھی ہے 
ہمدمو
ہاتھ میں ہاتھ دو 
سوئے منزل چلو 
منزلیں پیار کی 
منزلیں دار کی 
کوئے دل دار کی منزلیں 
دوش پر اپنی اپنی صلیبیں اٹھائے چلو 

مخدوم محی الدین

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *