Iztirab

Iztirab

چاند ستاروں سے کیا پوچھوں کب دن میرے پھرتے ہیں

چاند ستاروں سے کیا پوچھوں کب دن میرے پھرتے ہیں 
وہ تو بچارے خود ہیں بھکاری ڈیرے ڈیرے پھرتے ہیں 
جن گلیوں میں ہم نے سکھ کی سیج پہ راتیں کاٹی تھیں 
ان گلیوں میں بیاکل ہو کر سانجھ سویرے پھرتے ہیں 
روپ سروپ کی جوت جگانا اس نگری میں جوکھم ہے 
چاروں کھونٹ بگولے بن کر گھور اندھیرے پھرتے ہیں 
جن کے شیام برن سائے میں میرا من سستایا تھا 
اب تک آنکھوں کے آگے وہ بال گھنیرے پھرتے ہیں 
کوئی ہمیں بھی یہ سمجھا دو ان پر دل کیوں ریجھ گیا 
دیکھی چتون بانکی چھب والے بہتیرے پھرتے ہیں 
اک دن اس نے نین ملا کے شرما کے مکھ موڑا تھا 
تب سے سندر سندر سپنے من کو گھیرے پھرتے ہیں 
اس نگری کے باغ اور من کی یارو لیلیٰ نیاری ہے 
پنچھی اپنے سر پہ اٹھا کر اپنے بسیرے پھرتے ہیں 
لوگ تو دامن سی لیتے ہیں جیسے ہو جی لیتے ہیں 
عابدؔ ہم دیوانے ہیں جو بال بکھیرے پھرتے ہیں 

سید عابد علی عابد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *