Iztirab

Iztirab

میرے خواب

اے مرے حسیں خوابو 
تم کہاں سے آئے ہو 
کس افق سے ابھرے ہو 
کس شفق سے نکھرے ہو 
کن گلوں کی صحبت میں 
تم نے تربیت پائی 
کس جہاں سے لائے ہو 
یہ جمال و رعنائی 

جیل تو بھیانک ہے 
اس ذلیل دنیا میں 
حسن کا گزر کیسا 
رنگ ہے نہ نکہت ہے 
نور ہے نہ جلوہ ہے 
جبر کی حکومت ہے 
تم کہاں سے آئے ہو 
اے مرے حسیں خوابو 

میں نے تم کو دیکھا ہے 
یاد اب نہیں آتا 
شاید ایک لڑکی کی 
تھرتھراتی پلکوں میں 
جگمگاتی آنکھوں میں 
یا کسی تبسم میں 
جو نہا کے نکلا ہو 
آنسوؤں کی شبنم سے 

اک ہمکتے بچے کی 
مٹھیوں کے پھولوں پر 
تتلیوں کی یورش سی 
اور ماں کی نظروں میں 
سیکڑوں امیدوں کے 
شوخ رنگ گلدستے 

میں نے تم کو دیکھا ہے 
ننھی ننھی گڑیوں میں 
ناچتے کھلونوں میں 
یا ربر کی گیندوں میں 
میں نے تم کو دیکھا ہے 
گھٹنیوں چلے ہو تم 
توتلی زبانوں سے 
تم نے دودھ مانگا ہے 

ایک شاہزادہ تھا 
ایک شاہزادی تھی
اس حسیں کہانی پر 
جانے کتنے بچوں نے 
اپنے سر اٹھائے ہیں 
جانے کتنی آنکھوں میں 
پھول مسکرائے ہیں 
اور میں سمجھتا ہوں 
تم اسی کہانی کی 
سر زمیں سے آئے ہو 

کچھ کسان کنیائیں 
سبز و سرخ شیشوں کی 
چوڑیاں کلائی میں 
اور گلٹ کی چاندی کی 
ہنسلیوں سے گردن میں 
نیم چاند کے حلقے 
چولیوں پہ لہنگوں پر 
زرد زرد مٹی کے 
زرد بیل بوٹے سے 
میلے میلے آنچل پر 
بالیوں کے بوسے ہیں 
ان کے ہاتھ میں ہنسیے 
گیت گانے لگتے ہیں 
جھوم جھوم کر پودے 
اپنا سر جھکاتے ہیں 
نوجوان لٹھیارے 
کھیت کی منڈیروں پر 
پریم گیت گاتے ہیں 
اے مرے حسیں خوابو 
تم انہیں بہاروں کی 
کونپلوں سے پھوٹے ہو 
ایک کارخانے میں 
چند نوجوانوں نے 
انجمن بنائی ہے 
اور اس میں لینن کی 
اک کتاب پڑھتے ہیں 
سن رہی ہیں دیواریں 
ہنس رہی ہے تاریکی 
نوجوان بیٹھے ہیں 
اور کتاب پڑھتے ہیں 
ایک ایک جملے پر 
چونک چونک پڑتے ہیں 
ایک ایک فقرے پر 
اپنا سر ہلاتے ہیں 
گاہ آہ بھرتے ہیں 
گاہ مسکراتے ہیں 
میں نے ان کے سینوں میں 
اے مرے حسیں خوابو 
تم کو ناچتے دیکھا 
میں نے تم کو دیکھا ہے 
جب سیاہ محرابیں 
آسماں پہ بنتی ہیں 
جب سکوت کی پریاں 
کہکشاں پہ چلتی ہیں 
گیسوؤں کی نکہت سے 
جب ہوا مہکتی ہیں 
جب فضا چہکتی ہے 
میرے گرم ہونٹوں پر 
پیار تھرتھراتے ہیں 
اور میری محبوبہ 
اپنے رنگ عارض سے 
بجلیاں بناتی ہے 
اور میری نظروں میں 
اک جہان مٹتا ہے 
اک جہان بنتا ہے 
اک زمین ہٹتی ہے 
اک زمین آتی ہے 

میں اسیر ہوں لیکن 
تم کو کوئی بھی قانون 
قید کر نہیں سکتا 
سر بلند اور آزاد 
یوں ہی مسکرائے جاؤ 
میرے دل کی دنیا میں 
یوں ہی جگمگائے جاؤ 
قید و بند کے جلاد 
تم کو پا نہیں سکتے 
لمبے لمبے ظالم ہاتھ 
تم کو چھو نہیں سکتے 
اے مرے حسیں خوابو 

علی سردار جعفری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *