Iztirab

Iztirab

چمک جگنو کی برق بے اماں معلوم ہوتی ہے

چمک جگنو کی برق بے اماں معلوم ہوتی ہے
قفس میں رہ کے قدر آشیاں معلوم ہوتی ہے
کہانی میری روداد جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
سحر تک سعی نالہ رائیگاں معلوم ہوتی ہے
یہ دنیا تو بقدر یک فغاں معلوم ہوتی ہے
کسی کے دل میں گنجائش نہیں وہ بار ہستی ہوں
لحد کو بھی مری مٹی گراں معلوم ہوتی ہے
خزاں کے وقت بھی خاموش رہتی ہے فضا ساری
چمن کی پتی پتی راز داں معلوم ہوتی ہے
ہوائے شوق کی قوت وہاں لے آئی ہے مجھ کو
جہاں منزل بھی گرد کارواں معلوم ہوتی ہے
ترقی پر ہے روز افزوں خلش درد محبت کی
جہاں محسوس ہوتی تھی وہاں معلوم ہوتی ہے
قفس کی تیلیوں میں جانے کیا ترکیب رکھی ہے
کہ ہر بجلی قریب آشیاں معلوم ہوتی ہے
نہ کیوں سیمابؔ مجھ کو قدر ہو ویرانی دل کی
یہ بنیاد نشاط دو جہاں معلوم ہوتی ہے

سیماب اکبر آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *