Iztirab

Iztirab

چپکے چپکے غم کا کھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

چپکے چپکے غم کا کھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 
جی ہی جی میں تلملانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 
ابر کیا آنسو بہانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 
برق کیا ہے تلملانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 
ذکر شمع حُسن لانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 
اِن کو درپردہ جلانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 
جھوٹ موٹ افیون کھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 
اِن کو کف لا کر ڈرانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 
سن کہ آمد ان کی از خود رفتہ ہو جاتے ہیں ہم 
پیشوا لینے کو جانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 
ہم نے اول ہی کہا تھا تُو کرے گا ہم کو قتِل 
تیوروں کا تاڑ جانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 
لطف اٹھانا ہے اگر منظور اس کہ ناز کا 
پہلے اِس کا ناز اٹھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 
جُو سکھایا اپنی قسمت نے وگرنہ اِس کو غیر 
کیا سکھائے گا سکھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 
دیکھ کر قاتِل کو بھر لائے خراش دِل میں خوں 
سچ تُو یہ ہے مسکرانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 
تیر و پیکاں دِل میں جتنے تھے دیے ہم نے نکال 
اپنے ہاتھوں گھر لٹانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 
کہہ دو قاصد سے کے جائے کچھ بہانے سے وہاں 
گر نہیں آتا بہانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 
خط میں لکھوا کر انہیں بھیجا تُو مطلع درد کا 
درد دِل اپنا جتانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 
جب کہا مرتا ہوں وُہ بولے میرا سر کاٹ کر 
جھوٹ کو سچ کر دکھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 
واں ہلے ابرو یہاں پھیری گلے پر ہم نے تیغ 
بات کا ایما سے پانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 
تیغ تُو اوچھی پڑی تھی گر پڑے ہم آپ سے 
دِل کو قاتِل کہ بڑھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 
زخم کو سیتے ہیں سب پر سوزن الماس سے 
چاک سینے کہ سلانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 
پُوچھے ملا سے جسے کرنا ہو سجدہ سہو کا 
سیکھے گر اپنا بھلانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 
کیا ہوا اے ذوقؔ ہیں جوں مردمک ہم رو سیاہ 
.لیکن آنکھوں میں سمانا کوئی ہم سے سیکھ جائے 

شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *