Iztirab

Iztirab

چکھی نہ جس نے کبھی لذت سنان نگاہ

چکھی نہ جس نے کبھی لذت سنان نگاہ 
مزہ دے پھر اسے کیا تیغ خوں چکان نگاہ 
جس انجمن میں کہ پڑتا نہ تھا گمان نگاہ 
پڑا ہے ٹوٹ دم رقص آسمان نگاہ 
بلا سے اس سے ہی روز سیہ کا حال کہوں 
کہ میل سرمہ ہے اس کے مزاج دان نگاہ 
دھنک سے سرمے کی چلہ ہے تا بہ گوشۂ چشم 
کوئی ہے صید جو پھر زہ ہوئی کمان نگاہ 
بری ہے واجب و ممکن کی قید سے وہ حسن 
نہ درمیانۂ مردم نہ درمیان نگاہ 
ہوا تھا مستی کی مجلس میں شب گزر اپنا 
کیا نظارۂ محویت جہان نگاہ 
وہ آسماں کی طرف دیکھے گر اٹھا کر آنکھ 
گرے زمین پہ عیسیٰ بھی کھا سنان نگاہ 
نہ تاب نور تجلی کی لا سکا موسیٰ 
فروغ حسن ہوا باعث زیان نگاہ 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *