Iztirab

Iztirab

چھوڑ کر گھر بار اپنا حسرت دیدار میں

چھوڑ کر گھر بار اپنا حسرت دیدار میں
اک تماشہ بن کے آ بیٹھا ہوں کوئے یار میں
دم نکل جائے گا حسرت سے نہ دیکھ اے ناخدا
اب مری قسمت پہ کشتی چھوڑ دے منجدھار میں
دیکھ بھی آ بات کہنے کے لئے ہو جائے گی
صرف گنتی کی ہیں سانسیں اب ترے بیمار میں
فصل گل میں کس قدر منحوس ہے رونا مرا
میں نے جب نالے کئے بجلی گری گل زار میں
جل گیا میرا نشیمن یہ تو میں نے سن لیا
باغباں تو خیریت سے ہے صبا گل زار میں

قمر جلالوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *