Iztirab

Iztirab

چہرے پہ نہ یہ نقاب دیکھا

چہرے پہ نہ یہ نقاب دیکھا 
پردے میں تھا آفتاب دیکھا 
کیوں کر نہ بکوں میں ہاتھ اس کے 
یوسف کی طرح میں خواب دیکھا 
کچھ میں ہی نہیں ہوں، ایک عالم 
اس کے لیے یاں خراب دیکھا 
دل تو نے عبث لکھا تھا نامہ 
جو ان نے دیا جواب دیکھا 
بے جرم و گناہ قتل عاشق 
مذہب میں ترے صواب دیکھا 
کچھ ہووے تو ہو عدم میں راحت 
ہستی میں تو ہم عذاب دیکھا
جس چشم نے مجھ طرف نظر کی 
اس چشم کو میں پر آب دیکھا 
حیران وہ تیرے عشق میں ہے 
یاں ہم نے جو شیخ و شاب دیکھا 
بھولا ہے وہ دل سے لطف اس کا 
.سوداؔ نے یہ جب عتاب دیکھا

مرزا محمد رفیع سودا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *