Iztirab

Iztirab

ڈاکو

کل رات مرا بیٹا مرے گھر 
چہرے پہ منڈھے خاکی کپڑا 
بندوق اٹھائے آ پہنچا 
نو عمری کی سرخی سے رچی اس کی آنکھیں 
میں جان گئی 
اور بچپن کے صندل سے منڈھا اس کا چہرہ 
پہچان گئی 
وہ آیا تھا خود اپنے گھر 
گھر کی چیزیں لے جانے کو 
ان کہی کہی منوانے کو 

باتوں میں دودھ کی خوشبو تھی 
جو کچھ بھی سینت کے رکھا تھا 
میں ساری چیزیں لے آئی 
اک لعل بدخشاں کی چڑیا 
سونے کا ہاتھ چھوٹا سا 
چاندی کی اک ننھی تختی 
ریشم کی پھول بھری ٹوپی 
اطلس کا نام لکھا جزدان 
جزدان میں لپٹا اک قرآں 
پر وہ کیسا دیوانہ تھا 
کچھ چھوڑ گیا کچھ توڑ گیا 
اور لے بھی گیا ہے وہ تو کیا 
لوہے کی بد صورت گاڑی 
پٹرول کی بو بھی آئے گی 
جس کے پہیے بھی ربر کے ہیں 
جو بات نہیں کر پائے گی 
بچہ پھر آخر بچہ ہے 

زہرا نگاہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *