Iztirab

Iztirab

ڈر نہیں مجھ کو گناہوں کی گراں باری کا

ڈر نہیں مجھ کو گناہوں کی گراں باری کا
تیری رحمت ہے سبب میری سبک ساری کا
دار نے اک سگ دنیا کو یہ بخشا ہے عروج
ہے فرشتوں میں بھی چرچا مری دیں داری کا
دل و جاں سونپ چکے ہم تجھے اے جان جہاں
اب ہمیں خوف ہی کیا اپنی گرفتاری کا
جان بھی چیز ہے کوئی کہ رکھیں تم سے دریغ
پاس اتنا بھی نہ ہو رسم وفاداری کا
ساقیا سب کو تری ایک نظر کافی تھی
تھا کسے ہوش ترے عہد میں ہشیاری کا
میں فدا آج بھی ہو جائے وہی ایک نگاہ
خاتمہ ہو کہیں اس دور کی خودداری کا
عاشقوں کے لیے ہے دار ہی داروئے شفا
عشق کی طب میں دوا نام ہے بیماری کا
اجل استادہ ہے بالیں پہ مریض غم عشق
آنکھ تو کھول ذرا وقت ہے بیداری کا
جوہرؔ اور حاجب و درباں کی خوشامد کیا خوب
عرش و کرسی پہ گزر ہے ترے درباری کا

مولانا محمد علی جوہر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *