Iztirab

Iztirab

ڈھل گئی ہستی دل یوں تری رعنائی میں

ڈھل گئی ہستی دل یوں تری رعنائی میں
مادہ جیسے نکھر جائے توانائی میں
پہلے منزل پس منزل پس منزل اور پھر
راستے ڈوب گئے عالم تنہائی میں
گاہے گاہے کوئی جگنو سا چمک اٹھتا ہے
میرے ظلمت کدۂ انجمن آرائی میں
ڈھونڈھتا پھرتا ہوں خود اپنی بصارت کی حدود
کھو گئی ہیں مری نظریں مری بینائی میں
ان سے محفل میں ملاقات بھی کم تھی نہ مگر
اف وہ آداب جو برتے گئے تنہائی میں
یوں لگا جیسے کہ بل کھا کے دھنک ٹوٹ گئی
اس نے وقفہ جو لیا ناز سے انگڑائی میں
کس نے دیکھے ہیں تری روح کے رستے ہوئے زخم
کون اترا ہے ترے قلب کی گہرائی میں
رئیس امروہوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *