Iztirab

Iztirab

کافر تُجھے اللہ نے صورت تو پری دی

کافر تُجھے اللہ نے صورت تو پری دی 
پر حیف تیرے دل میں محبت نہ ذری دی 
دی تو نے مجھے سلطنت بحر و بر اے عشق 
ہونٹوں کو جو خشکی میری آنکھوں کو تیری دی 
خال لب شیریں کا دیا بوسہ کب اس نے 
اک چاٹ لگانے کو میرے نیشکری دی 
کافر تیرے سوائے سر زلف نے مُجھ کو 
کیا کیا نہ پریشانی و آشفتہ سری دی 
محنت سے ہے عظمت کے زمانے میں نگیں کو 
بے کاوش سینہ نہ کبھی ناموری دی 
صیاد نے دی رخصت پرواز پر افسوس 
تُو نے نہ اجازت مجھے بے بال و پری دی 
کہتا تیرا کچھ سوختہ جاں لیک اجل نے 
فرصت نہ اسے مثل چراغ سحری دی 
قسام ازل نے نہ رکھا ہم کو بھی محروم 
گرچہ نہ دیا کوئی ہنر بے ہنری دی 
اس چشم میں ہے سرمے کا دنبالہ پر آشوب 
کیوں ہاتھ میں بدمست کہ بندوق بھری دی 
دل دے کہ کیا ہم نے تیری زلف کا سودا 
اک آپ بلا اپنے لیے مُول خریدی 
ساقی نے دیا کیا مُجھے اک ساغر سرشار 
.گویا کے دو عالم سے ظفرؔ بے خبری دی 

بہادر شاہ ظفر 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *