Iztirab

Iztirab

کانٹا سا جو چبھا تھا وہ لو دے گیا ہے کیا

کانٹا سا جو چبھا تھا وہ لو دے گیا ہے کیا
گھلتا ہوا لہو میں یہ خورشید سا ہے کیا
پلکوں کے بیچ سارے اجالے سمٹ گئے
سایہ نہ ساتھ دے یہ وہی مرحلہ ہے کیا
میں آندھیوں کے پاس تلاش صبا میں ہوں
تم مجھ سے پوچھتے ہو مرا حوصلہ ہے کیا
ساگر ہوں اور موج کے ہر دائرے میں ہوں
ساحل پہ کوئی نقش قدم کھو گیا ہے کیا
سو سو طرح لکھا تو سہی حرف آرزو
اک حرف آرزو ہی مری انتہا ہے کیا
اک خواب دل پذیر گھنی چھاؤں کی طرح
یہ بھی نہیں تو پھر مری زنجیر پا ہے کیا
کیا پھر کسی نے قرض مروت ادا کیا
کیوں آنکھ بے سوال ہے دل پھر دکھا ہے کیا
ادا جعفری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *