Iztirab

Iztirab

کبھو تک کے در کو کھڑے رہے کبھو آہ بھر کے چلے گئے

کبھو تک کے در کو کھڑے رہے کبھو آہ بھر کے چلے گئے 
ترے کوچے میں جو ہم آئے بھی تو ٹھہر ٹھہر کے چلے گئے 
گئے باغ میں کسی گل تلے تو وہاں بھی اپنا نہ جی لگا 
لے برنگ غنچہ جمائیاں تجھے یاد کر کے چلے گئے 
کہیں غش میں تھا میں پڑا ہوا سنو اور قہر کی بات تم 
مجھے دیکھنے کو جو آئے وہ تو بگڑ سنور کے چلے گئے 
کروں مو و زلف کا کیا بیاں کہ عجیب قصہ ہے درمیاں 
یہ ادھر کو سینے پہ آ رہی وہ ادھر کمر کے چلے گئے 
اب انیس ہے نہ جلیس ہے نہ رفیق ہے نہ شفیق ہے 
ہم اکیلے گھر میں پڑے رہے سبھی لوگ گھر کے چلے گئے 
یہ عجب زمانے کی رسم ہے کہ جنہوں پہ مرتے تھے ہم سدا 
پس مرگ آ وہی خاک میں ہمیں آہ دھر کے چلے گئے 
چڑھے کوٹھے پر تو تھے مصحفیؔ پہ نہ داؤ پر وہ مرے چڑھے 
میں چڑھاؤں جب تلک آستیں اٹھے اور اتر کے چلے گئے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *