Iztirab

Iztirab

کبھی بھلایا نہیں یاد بھی کیا نہیں ہے

کبھی بھلایا نہیں یاد بھی کیا نہیں ہے 
یہ کیسا جرم ہے جس میں کوئی سزا نہیں ہے 
میں بات بات پہ رونے کا ماجرا پوچھوں 
وہ ہنس رہا ہے بتانے کو کچھ رہا نہیں ہے 
زمیں پہ آہ و بکا اور خون ناحق بھی 
زبان خلق یہ پوچھے ہے کیا خدا نہیں ہے 
کلام کرنے کو ناصح رہا نہ واعظ ہے 
میں کیا کہوں کہ مرے پاس بد دعا نہیں ہے 
بس اب تو آنکھ میں صحرا ہی جم گیا آ کے 
سمجھ لو خواب بھی دہلیز پہ رکھا نہیں ہے 
قدم قدم پہ وہی تلملاتی خواہش ہے 
پیام لانے کو کوئی بھی دل ربا نہیں ہے 
مری اداسی مرے کام آ سکی نہ کبھی 
بس اب سوال بھی کرنے کا حوصلہ نہیں ہے 
رقیب خواہش موجودہ سن لیا تو نے 
چمن بہت ہیں مگر کوئی دیکھتا نہیں ہے 

کشور ناہید

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *