Iztirab

Iztirab

کرشن کنھیا

اے دیکھنے والو 
اس حسن کو دیکھو 
اس راز کو سمجھو 
یہ نقش خیالی 
یہ فکرت عالی 
یہ پیکر تنویر 
یہ کرشن کی تصویر 
معنی ہے کہ صورت 
صنعت ہے کہ فطرت 
ظاہر ہے کہ مستور 
نزدیک ہے یا دور 
یہ نار ہے یا نور 
دنیا سے نرالا 
یہ بانسری والا 
گوکل کا گوالا 
ہے سحر کہ اعجاز 
کھلتا ہی نہیں راز 
کیا شان ہے واللہ 
کیا آن ہے واللہ 
حیران ہوں کیا ہے 
اک شان خدا ہے 
بت خانے کے اندر 
خود حسن کا بت گر 
بت بن گیا آ کر 
وہ طرفہ نظارے 
یاد آ گئے سارے 
جمنا کے کنارے 
سبزے کا لہکنا 
پھولوں کا مہکنا 
گھنگھور گھٹائیں 
سرمست ہوائیں 
معصوم امنگیں 
الفت کی ترنگیں 
وہ گوپیوں کے ساتھ 
ہاتھوں میں دیئے ہاتھ 
رقصاں ہوا برج ناتھ 
بنسی میں جو لے ہے 
نشہ ہے نہ مے ہے 
کچھ اور ہی شے ہے 
اک روح ہے رقصاں 
اک کیف ہے لرزاں 
ایک عقل ہے مے نوش 
اک ہوش ہے مدہوش 
اک خندہ ہے سیال 
اک گریہ ہے خوش حال 
اک عشق ہے مغرور  
اک حسن ہے مجبور 
اک سحر ہے مسحور 
دربار میں تنہا 
لاچار ہے کرشنا 
آ شیام ادھر آ 
سب اہل خصومت 
ہیں در پئے عزت 
یہ راج دلارے 
بزدل ہوئے سارے 
پردہ نہ ہو تاراج 
بیکس کی رہے لاج 
آ جا میرے کالے 
بھارت کے اجالے 
دامن میں چھپا لے 
وہ ہو گئی ان بن 
وہ گرم ہوا رن 
غالب ہے دریودھن 
وہ آ گئے جگدیش 
وہ مٹ گئی تشویش 
ارجن کو بلایا 
اپدیش سنایا 
غم زاد کا غم کیا 
استاد کا غم کیا 
لو ہو گئی تدبیر 
لو بن گئی تقدیر 
لو چل گئی شمشیر 
سیرت ہے عدو سوز 
صورت نظر افروز 
دل کیفیت اندوز 
غصے میں جو آ جائے 
بجلی ہی گرا جائے  
اور لطف پر آئے 
تو گھر بھی لٹا جائے 
پریوں میں ہے گلفام 
رادھا کے لیے شیام 
بلرام کا بھیا 
متھرا کا بسیا 
بندرا میں کنھیا 
بن ہو گئے ویراں 
برباد گلستاں 
سکھیاں ہیں پریشاں 
جمنا کا کنارا 
سنسان ہے سارا 
طوفان ہیں خاموش 
موجوں میں نہیں جوش 
لو تجھ سے لگی ہے 
حسرت ہی یہی ہے 
اے ہند کے راجا 
اک بار پھر آ جا 
دکھ درد مٹا جا 
ابر اور ہوا سے 
بلبل کی صدا سے 
پھولوں کی ضیا سے 
جادو اثری گم 
شوریدہ سری گم 
ہاں تیری جدائی 
متھرا کو نہ بھائی 
تو آئے تو شان آئے 
تو آئے تو جان آئے 
آنا نہ اکیلے 
ہوں ساتھ وہ میلے 
سکھیوں کے جھمیلے 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *