Iztirab

Iztirab

کرم بہ نام ستم اس پہ بے حساب ہوا

کرم بہ نام ستم اس پہ بے حساب ہوا 
جو لٹ گیا رہ الفت میں کامیاب ہوا 
نظر نظر نے پنہایا لباس تار نظر 
پس نقاب ہوا جو بھی بے نقاب ہوا 
وہ سرفراز ہوا کاروبار الفت میں 
برائے مشق جفا جس کا انتخاب ہوا 
نہ زندگی نے قبولا نہ موت نے پوچھا 
خراب حال زمانہ بہت خراب ہوا 
اتر گئے جو کسی کی ہنسی کے صدقے میں 
ان آنسوؤں کا ہوا تو کہاں حساب ہوا 
یہ کیا کہ اپنی بھی پہچان ہو گئی مشکل 
بالآخر اپنی نگاہوں سے بھی حجاب ہوا 
اتر سکا جو کھرا وقت کی کسوٹی پر 
مآل کار وہ ذرہ بھی آفتاب ہوا 
دل و نظر کی بہاروں کے رخ پلٹتے ہی 
رشیؔ گلاب کا چہرہ بھی آب آب ہوا 

رشی پٹیالوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *