Iztirab

Iztirab

کریں گے شکوہ جور و جفا دل کھول کر اپنا

کریں گے شکوہ جور و جفا دل کھول کر اپنا
کہ یہ میدان محشر ہے نہ گھر ان کا نہ گھر اپنا
مکاں دیکھا کئے مڑ مڑ کے تا حد نظر اپنا
جو بس چلتا تو لے آتے قفس میں گھر کا گھر اپنا
بہے جب آنکھ سے آنسو بڑھا سوز جگر اپنا
ہمیشہ مینہ برستے میں جلا کرتا ہے گھر اپنا
پسینہ اشک حسرت بے قراری آخری ہچکی
اکٹھا کر رہا ہوں آج سامان سفر اپنا
یہ شب کا خواب یارب فصل گل میں سچ نہ ہو جائے
قفس کے سامنے جلتے ہوئے دیکھا ہے گھر اپنا
دم آخر علاج سوز غم کہنے کی باتیں ہیں
مرا رستہ نہ روکیں راستہ لیں چارہ گر اپنا
نشانات جبیں جوش عقیدت خود بتا دیں گے
نہ پوچھو مجھ سے سجدے جا کے دیکھو سنگ در اپنا
جواب خط کا ان کے سامنے کب ہوش رہتا ہے
بتاتے ہیں پتا میرے بجائے نامہ بر اپنا
مجھے اے قبر دنیا چین سے رہنے نہیں دیتی
چلا آیا ہوں اتنی بات پر گھر چھوڑ کر اپنا
شکن آلود بستر ہر شکن پر خون کے دھبے
یہ حال شام غم لکھا ہے ہم نے تا سحر اپنا
یہی تیر نظر تو ہیں مرے دل میں حسینوں کے
جو پہچانو تو لو پہچان لو تیر نظر اپنا
قمرؔ ان کو نہ آنا تھا نہ آئے صبح ہونے تک
شب وعدہ سجاتے ہی رہے گھر رات بھر اپنا
زمیں مجھ سے منور آسماں روشن مرے دم سے
خدا کے فضل سے دونوں جگہ قبضہ قمرؔ اپنا

قمر جلالوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *