Iztirab

Iztirab

کسان

چیر کے سال میں دو بار زمیں کا سینہ 
دفن ہو جاتا ہوں 
گدگداتے ہیں جو سورج کے سنہرے ناخن 
پھر نکل آتا ہوں 
اب نکلتا ہوں تو اتنا کہ بٹورے جو کوئی دامن میں 
دامن پھٹ جائے 
گھر کے جس کونے میں لے جا کے کوئی رکھ دے مجھے 
بھوک وہاں سے ہٹ جائے 
پھر مجھے پیستے ہیں، گوندھتے ہیں، سینکتے ہیں 
گوندھنے سینکنے میں شکل بدل جاتی ہے 
اور ہو جاتی ہے مشکل پہچان 
پھر بھی رہتا ہوں کسان 
وہی خستہ، بد حال 
قرض کے پنجۂ خونیں میں نڈھال 
اس درانتی کے طفیل 
کچھ ہے ماضی سے غنیمت مرا حال 
حال سے ہوگا حسیں استقبال 
اٹھتے سورج کو ذرا دیکھو تو 
ہو گیا سارا افق لالوں لال 

کیفی اعظمی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *