کسی خیال کی رو میں تھا مسکراتے ہوئے
مگر وہ چونک پڑا تھا نظر ملاتے ہوئے
چمک تھی اک پس دیوار صاعقہ بر دوش
کہ طاق و در تھے شب ماہ میں نہاتے ہوئے
مگر نوشتۂ دیوار لا زوالی ہے
زمانہ کروٹیں لیتا ہے آتے جاتے ہوئے
کبھی کبھی کوئی لمحہ بھی جاودانی ہے
گزر گئیں کئی صدیاں یہی سناتے ہوئے
جو رہ گیا تھا کہیں اک سحاب نا رفتہ
بکھر کے خاک ہوا پاؤں لڑکھڑاتے ہوئے
میں ڈگمگایا تو ساحل کا تھا نہ موجوں کا
چمک رہی تھی ندی آسماں اڑاتے ہوئے
ذرا سی روشنی پھوٹی تو صبح دم سورج
فضا میں ڈوب گیا آستیں چڑھاتے ہوئے
کوئی کسی کا نہیں اس سرائے فانی میں
کوئی چراغ بجھا یہ صدا لگاتے ہوئے
سید امین اشرف