Iztirab

Iztirab

کسی صورت سحر نہیں ہوتی

کسی صورت سحر نہیں ہوتی
رات ادھر سے ادھر نہیں ہوتی
خوف صیاد سے نہ برق کا ڈر
بات یہ اپنے گھر نہیں ہوتی
ایک وہ ہیں کہ روز آتے ہیں
ایک ہم ہیں خبر نہیں ہوتی
اب میں سمجھا ہوں کاٹ کر شب غم
زندگی مختصر نہیں ہوتی
کتنی پابند وضع ہے شب غم
کبھی غیروں کے گھر نہیں ہوتی
کتنی سیدھی ہے راہ ملک عدم
حاجت راہ بر نہیں ہوتی
سن لیا ہوگا تم نے حال مریض
اب دوا کارگر نہیں ہوتی
عرش ملتا ہے میری آہوں سے
لیکن ان کو خبر نہیں ہوتی

قمر جلالوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *