Iztirab

Iztirab

کسی گماں پہ توقع زیادہ رکھتے ہیں

کسی گماں پہ توقع زیادہ رکھتے ہیں 
پھر آج کوئے بتاں کا ارادہ رکھتے ہیں 
بہار آئے گی جب آئے گی یہ شرط نہیں 
کہ تشنہ کام رہیں گرچہ بادہ رکھتے ہیں 
تری نظر کا گلہ کیا جو ہے گلہ دل کا 
تو ہم سے ہے کے تمنا زیادہ رکھتے ہیں 
نہیں شراب سے رنگیں تو غرق خوں ہیں کے ہم 
خیال وضع قمیص و لبادہ رکھتے ہیں 
غم جہاں ہو غم یار ہو کے تیر ستم 
جو آئے آئے کے ہم دل کشادہ رکھتے ہیں 
جواب واعظ چابک زباں میں فیض ہمیں 
.یہی بہت ہیں جو دو حرف سادہ رکھتے ہیں 

فیض احمد فیض 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *