Iztirab

Iztirab

کس تصور میں وہ کھو جاتے ہیں اٹھتے بیٹھتے

کس تصور میں وہ کھو جاتے ہیں اٹھتے بیٹھتے 
اپنے جی میں آپ شرماتے ہیں اٹھتے بیٹھتے 
پاس رہ کر جو ستم ڈھاتے ہیں اٹھتے بیٹھتے 
جب چلے جائیں تو یاد آتے ہیں اٹھتے بیٹھتے 
یوں ہم اپنے دل کو بہلاتے ہیں اٹھتے بیٹھتے 
کوئے جاناں تک پہنچ جاتے ہیں اٹھتے بیٹھتے 
اب تو وہ رہنے لگے ہر وقت مجھ سے بد گماں 
کا برا ان کا جو بھڑکاتے ہیں اٹھتے بیٹھتے
فصل گل کیا آئی ہے دیوار زنداں سے اسیر 
رات دن سر اپنا ٹکراتے ہیں اٹھتے بیٹھتے 
ہے غنیمت چند لمحوں کے لئے مل بیٹھنا 
دوست دنیا میں بچھڑ جاتے ہیں اٹھتے بیٹھتے 
کس کو یارائے سخن کس کو مجال گفتگو 
آپ جب خنجر ہی لہراتے ہیں اٹھتے بیٹھتے 
میرے دل کی الجھنوں کا بھی کبھی کوئی خیال 
زلف تو وہ اپنی سلجھاتے ہیں اٹھتے بیٹھتے 
چشم حق آگاہ میں کیا قدر و قیمت ان کی ہو 
چند سکوں پر جو اتراتے ہیں اٹھتے بیٹھتے 
آئینہ ہے اور وہ ہیں اور میرا دل نصیرؔ 
ان کی بن آئی ہے تڑپاتے ہیں اٹھتے بیٹھتے

پیر سید نصیر الدین نصیر شاہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *