Iztirab

Iztirab

کلرک کا نغمۂ محبت

سب رات مری سپنوں میں گزر جاتی ہے اور میں سوتا ہوں 
پھر صبح کی دیوی آتی ہے 
اپنے بستر سے اٹھتا ہوں منہ دھوتا ہوں 
لایا تھا کل جو ڈبل روٹی 
اس میں سے آدھی کھائی تھی 
باقی جو بچی وہ میرا آج کا ناشتہ ہے 

دنیا کے رنگ انوکھے ہیں 
جو میرے سامنے رہتا ہے اس کے گھر میں گھر والی ہے 
اور دائیں پہلو میں اک منزل کا ہے مکاں وہ خالی ہے 
اور بائیں جانب اک عیاش ہے جس کے ہاں اک داشتہ ہے 
اور ان سب میں اک میں بھی ہوں لیکن بس تو ہی نہیں 
ہیں اور تو سب آرام مجھے اک گیسوؤں کی خوشبو ہی نہیں 
فارغ ہوتا ہوں ناشتے سے اور اپنے گھر سے نکلتا ہوں 
دفتر کی راہ پر چلتا ہوں 
رستے میں شہر کی رونق ہے اک تانگہ ہے دو کاریں ہیں 
بچے مکتب کو جاتے ہیں اور تانگوں کی کیا بات کہوں 
کاریں تو چھچھلتی بجلی ہیں تانگوں کے تیروں کو کیسے سہوں 
یہ مانا ان میں شریفوں کے گھر کی دھن دولت ہے مایا ہے 
کچھ شوخ بھی ہیں معصوم بھی ہیں 
لیکن رستے پر پیدل مجھ سے بد قسمت مغموم بھی ہیں 
تانگوں پر برق تبسم ہے 
باتوں کا میٹھا ترنم ہے 
اکساتا ہے دھیان یہ رہ رہ کر قدرت کے دل میں ترحم ہے 
ہر چیز تو ہے موجود یہاں اک تو ہی نہیں اک تو ہی نہیں 
اور میری آنکھوں میں رونے کی ہمت ہی نہیں آنسو ہی نہیں 

جوں توں رستہ کٹ جاتا ہے اور بندی خانہ آتا ہے 
چل کام میں اپنے دل کو لگا یوں کوئی مجھے سمجھاتا ہے 
میں دھیرے دھیرے دفتر میں اپنے دل کو لے جاتا ہوں 
نادان ہے دل مورکھ بچہ اک اور طرح دے جاتا ہوں 
پھر کام کا دریا بہتا ہے اور ہوش مجھے کب رہتا ہے 

جب آدھا دن ڈھل جاتا ہے تو گھر سے افسر آتا ہے 
اور اپنے کمرے میں مجھ کو چپراسی سے بلواتا ہے 
یوں کہتا ہے ووں کہتا ہے لیکن بے کار ہی رہتا ہے 
میں اس کی ایسی باتوں سے تھک جاتا ہوں تھک جاتا ہوں 
پل بھر کے لیے اپنے کمرے کو فائل لینے آتا ہوں 
اور دل میں آگ سلگتی ہے میں بھی جو کوئی افسر ہوتا 
اس شہر کی دھول اور گلیوں سے کچھ دور مرا پھر گھر ہوتا 
اور تو ہوتی 
لیکن میں تو اک منشی ہوں تو اونچے گھر کی رانی ہے 
یہ میری پریم کہانی ہے اور دھرتی سے بھی پرانی 

میراجی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *