Iztirab

Iztirab

کمال ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی

کمال ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی 
میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی 
سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں 
میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آؤں گی 
بدن کے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا 
میں دل میں روؤں گی آنکھوں میں مسکراؤں گی 
وہ کیا گیا کہ رفاقت کے سارے لطف گئے 
میں کس سے روٹھ سکوں گی کسے مناؤں گی 
اب اس کا فن تو کسی اور سے ہوا منسوب 
میں کس کی نظم اکیلے میں گنگناؤں گی 
وہ ایک رشتۂ بے نام بھی نہیں لیکن 
میں اب بھی اس کے اشاروں پہ سر جھکاؤں گی 
بچھا دیا تھا گلابوں کے ساتھ اپنا وجود 
وہ سو کے اٹھے تو خوابوں کی راکھ اٹھاؤں گی 
سماعتوں میں گھنے جنگلوں کی سانسیں ہیں 
میں اب کبھی تری آواز سن نہ پاؤں گی 
جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محبت کا 
.وہ کہہ رہا تھا کہ میں اس کو بھول جاؤں گی

پروین شاکر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *