Iztirab

Iztirab

کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں

کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں 
بہت آگے گئے باقی جُو ہیں تیار بیٹھے ہیں 
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی 
تُجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں 
خیال اِن کا پرے ہے عرش اعظم سے کہیں ساقی 
غرض کچھ اُور دھن میں اِس گھڑی مے خوار بیٹھے ہیں 
بسان نقش پائے رہرواں کوئے تمنا میں 
نہیں اٹھنے کی طاقت کیا کریں لاچار بیٹھے ہیں 
یہ اپنی چال ہے افتادگی سے اِن دنوں پہروں 
نظر آیا جہاں پر سایۂ دیوار بیٹھے ہیں 
کہیں ہیں صبر کس کو آہ ننگ و نام ہے کیا شے 
غرض رو پیٹ کر ان سب کو ہم یک بار بیٹھے ہیں 
کہیں بوسے کی مت جرأت دلا کر بیٹھیو ان سے 
ابھی اس حد کو وُہ کیفی نہیں ہشیار بیٹھے ہیں 
نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اِس دور میں یارو 
جسے پُوچھو یہی کہتے ہیں ہم بے کار بیٹھے ہیں 
نئی یہ وضع شرمانے کی سیکھی آج ہے تم نے 
ہمارے پاس صاحب ورنہ یُوں سو بار بیٹھے ہیں 
کہاں گردش فلک کی چین دیتی ہے سنا انشاؔ 
.غنیمت ہے کے ہم صورت یہاں دُو چار بیٹھے ہیں 

انشاءاللہ خان

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *