Iztirab

Iztirab

کوئی آرزو نہیں ہے کوئی مدعا نہیں ہے

کوئی آرزو نہیں ہے کوئی مدعا نہیں ہے 
ترا غم رہے سلامت مرے دل میں کیا نہیں ہے 
کہاں جام غم کی تلخی کہاں زندگی کا درماں 
مجھے وہ دوا ملی ہے جو مری دوا نہیں ہے 
تو بچائے لاکھ دامن مرا پھر بھی ہے یہ دعویٰ 
ترے دل میں میں ہی میں ہوں کوئی دوسرا نہیں ہے 
تمہیں کہہ دیا ستمگر یہ قصور تھا زباں کا 
مجھے تم معاف کر دو مرا دل برا نہیں ہے 
مجھے دوست کہنے والے ذرا دوستی نبھا دے 
یہ مطالبہ ہے حق کا کوئی التجا نہیں ہے 
یہ اداس اداس چہرے یہ حسیں حسیں تبسم 
تری انجمن میں شاید کوئی آئنا نہیں ہے 
مری آنکھ نے تجھے بھی بہ خدا شکیلؔ پایا 
میں سمجھ رہا تھا مجھ سا کوئی دوسرا نہیں ہے 

شکیل بدایونی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *