کوئی بے جاں کوئی بے گھر نہیں دیکھا جاتا روز طرارۂ محشر نہیں دیکھا جاتا بے حسی شرط ہے جینے کے لئے یہ دنیا خم ابرو ہے کہ خنجر نہیں دیکھا جاتا چھین لے حیرت نظارہ یہ بینائی بھی آنکھ ہوتی ہے تو منظر نہیں دیکھا جاتا دیکھیے خسروی و منصفی و دادرسی تاج و تخت و زر و لشکر نہیں دیکھا جاتا کھیل بچوں کا نہیں شعلۂ صد خرمن ہے گل خوبی ہے تو چھوکر نہیں دیکھا جاتا دید کی شب تھی کہ بطلان تھا اس دعوے کا رات میں مہر منور نہیں دیکھا جاتا